اس سحر کی گزر تک ہوائیں الگ ہو جاتی ہیں
درد دل میں رکھیں تو پناہیں الگ ہو جاتی ہیں
کیوں ڈرتے ہو کانٹوں بھری زندگی سے
یوں پاؤں بچانے تک راہیں الگ ہو جاتی ہیں
اک سپنا کروٹوں کو خوب سہارا دیتا ہے
مگر آنکھ کھولنے تک بانہیں الگ ہو جاتی ہیں
قتل تو نگاہ بھی کرلیتی ہے تلوار کی طرح لیکن
دونوں جرموں کی سزائیں الگ ہو جاتی ہیں
کبھی افضل نظاروں کو اپنے حریص نہ رکھو
عکس کو تکنے تک نگاہیں الگ ہو جاتی ہیں
زمانے کے مزاج نے گھُٹ کر جینا سکھا دیا
اپنا درد چلانے سے آہیں الگ ہو جاتی ہیں
عمر بھر انسان اوروں کی نفس کشی رہا سنتوش
خود کو سمجھنے تک سانسیں الگ ہو جاتی ہیں