اس سے بچھڑ جانا ضروری تھا
غم کے اس پار اتر جانا ضروری تھا
حزیں نہ ہوئے ہم بھی بہت ٹوٹ کر
پتھر نہ بن جائیں اس در پہ بکھر جانا ضروری تھا
شام محبت بھی ڈھلتی گئی اس پل
کہکشاں سے پر ےسحر جانا ضروری تھا
نرم قالین کی طرح میری ہتھلیاں اس کے واسطے
نہ دکھ جائیں نازک پاؤ ں وہاں بہہ جانا ضروری تھا
وہ رہتا تھا میرے ساتھ بے چین سا
چپ چاپ اپنے نگر جانا ضروری تھا
کوئی مسیحا، کوئی ہمدرد نہ تھا زمانے میں
جھکی آنکھوں کے ساتھ گھر لوٹ جانا ضروری تھا
بن اس کے بھی تو نہ جیا جانا تھا
چپکے سے اپنی ذات میں مر جانا ضروری تھا