اس طرح دل پہ کوئی اثر کر دے
جیسے اک جادو کوئی جادوگر کر دے
کہکشاں چاند ستارے اے حسین قوس قزح
اتر کر اک بار تاج محل میرا گھر کر دے
دل تو پاگل ہے دیوانہ ہے کچھ سمجھتا نہیں
اس کا کوئی چارہ اے میرے چارہ گر کر دے
اس کی آنکھوں میں گرتے ہیں سمندر کتنے
مجھ کو بھی میرے خدایا کوئی سمندر کر دے
اس سے پہلے کہ وہی لمحہ مجھے چھین لے تم سے
مجھ پہ جلدی سے الفت کی کوئی نظر کر دے
اب وہ جذبات میں پہلے سی گرمی کہاں
آکے چپکے سے پھر تازہ خون جگر کر دے
اس سے پہلے کہ میں کھو جاؤں تاریک اندھیروں میں
تو ہو کر طلوع میری ہر شام سحر کر دے
سبھی انسان ہو جائیں پیروکار اس کے اشتیاق
عشق مذہب ہے وہ دعویٰ اگر کر دے