اس نے آنچل کو ہٹایا تو قسم ٹوٹ گئی
میں نے نظروں کو ملایا تو قسم ٹوٹ گئی
اِک ادا سے جو ھوئے مجھ سے تُو ناراض صنم
جیسے ہی تجھ کو منایا تو قسم ٹوٹ گئی
جبکہ دل پے بھی بھروسہ نہ رہا مجھ کو ابھی
دل کو دل سے جو لگایا تو قسم ٹوٹ گئی
اُس نے پوچھا کہ مجھے ٹوٹ کے چاھا تو نہیں!
رُخ پہ اشکوں کو بہایا تو قسم ٹوٹ گئی
منکرِپیار کو ساقی کی طرح اُس نے وہی
جامِ الفت جو پلایا تو قسم ٹوٹ گئی
کیا عجب کھیل تماشا ھے محبت بھی اسد
ہاتھ میں ہاتھ تھمایا تو قسم ٹوٹ گئی