وجد میں جھوم رہی ہیں فضائیں
اس نے زلفوں کو بکھیرا ہو گا
پھول کا رنگ کھلا ہے حیا سے
اس نے دھیرے سے کچھ کہا ہو گا
پرندے چہچہا اٹھے ہیں ہر سو
اس نے نغمہ کوئی چھیڑا ہو گا
دھڑکنیں بڑھ گئی ہیں سینے میں
اس نے قدموں کو بڑھایا ہو گا
آسماں پر گھٹائیں اٹھی ہیں
اس نے آنکھوں کو اٹھایا ہو گا
تتلیوں پر نشہ سا طاری ہے
اس نے یونہی ذرا چھوا ہو گا
سخن اترا رہا ہے شوخی میں
اس نے کاغذ پہ کچھ لکھا ہو گا
وقت ٹھہرا ہوا سا لگتا ہے
اس نے لمحات کو تھاما ہو گا
بادلوں نے پھوار پھینکی ہے
اس کا آنچل ذرا اڑا ہو گا
رقص جاری ہے پھول کلیوں کا
اس نے ہونٹوں کو ہلایا ہو گا
نظارے بن کے طائر اڑ رہے ہیں
اس نے سرشاری میں دیکھا ہو گا
حسن ہی حسن پھیلا جا رہا ہے
اسکے ہاتھوں میں آئینہ ہو گا
اسکے چہرے کی تاب نہ لا کر
چاند بادل میں چھپ گیا ہو گا
یہ جو بہکا ہوا سا موسم ہے
وہ کسی سوچ میں چلا ہو گا
سوچ میں بھر کے پھر خیال میرا
چلتے چلتے وہ رک گیا ہو گا
تھم گئی ہو گی وقت کی گردش
کیا ہوا ؟؟ لمحوں نے پوچھا ہو گا
اور پھر اس نے پریشانی میں
ٹھہرے لمحات سے کہا ہو گا
“مجھے جانا ہے ۔ ابھی جانا ہے“
“وہ بھری بزم میں تنہا ہو گا“