اس چلن کی حماقت سے بندش جو پڑی تھی
وہ کتنی تھی ناموزوں رنجش جو پڑی تھی
میری ہر آمیزش پہ پھر نمی سی چھاگئی
جس پر تیرے مزاج کی تپش جو پڑی تھی
ہم نے ہر باطن کو اپنے ڈھنگ میں دیکھا
پھر میرے رنگ پر کیوں قفس جو پڑی تھی
وہ اپنے قرینے سے مُکر بھی بیٹھے
مگر میری تو سانچ یوں اَبَس پڑی تھی
اپنی خودی سے ہٹکر ہم سے ہی پوُچھ لیتا
کہ کس کس اُلجھن میں قَبَس پڑی تھی
عاقبیت کی خبر آخر کیسے ملتی سنتوش
جہاں زندگانی بھی جیسے بے بس پڑی تھی