اس کا آنے کو دل نہیں کرتا
آزمانے کو دل نہیں کرتا
ویسے آیا ہے میری چوکھٹ پر
سر جھکانے کو دل نہیں کرتا
اس کا انداز ہے خدا جانے
سر اٹھانے کو دل نہیں کرتا
بجلی آنکھوں میں لے کے بیٹھے ہیں
پر گرانے کو دل نہیں کرتا
مل گیا راستے میں مے خانہ
اب تو جانے کو دل نہیں کرتا
نارسائی کا مجھ کو رنج نہیں
اس کا آنے کو دل نہیں کرتا
جس کے لب پر ہے میرا افسانہ
دل لگانے کو دل نہیں کرتا
مانگوں کیا میں وفا زمانے سے
درد پانے کو دل نہیں کرتا
جب سے آنکھوں میں آ بسے ہو تم
بھول جانے کو دل نہیں کرتا
تیری دنیا کے قید خانے میں
غم اٹھانے کو دل نہیں کرتا
آپ کے شہر آ گئی وشمہ
اب تو جانے کو دل نہیں کرتا