دل کی کریں باتیں تو منکر نظر آتا ہے
ہر شخص مجھے تو پتھر نظر آتا ہے
اک پل کو بھی دل سے بھلایا نہیں جسکو
وہ میری طلب کا ساگر نظر آتا ہے
رہبر ہو عدو کا تو منزل کی خبر کیا
مجھ کو تو میرا رستہ بنجر نظر آتا ہے
داستانیں لکھی ہیں ہر چہر ے پہ لیکن
ہر چہرا فسوں کا خوگر نظر آتا ہے
تھوڑا سا اندھیر ے کو چھٹ تو جانے دو
یہ سفر تو وسیلہء ظفر نظر آتا ہے
گزری ہوئی یادوں کو میں کیسے بھلا دوں
اس کا سایہ تو میری چھت پر نظر آتا ہے
وہ مڑ کر مجھے اب دیکھتے ہیں یارو
کچھ تو میر ے شعروں میں اثر نظر آتا ہے
دنیا ہے تماشا اور ہر فرد یہاں عارف
چہر ے بدلتا ہوا جوکر نظر آتا ہے