کوئی ایسی بے قراروں کو بھلا ملتی ہے
جیسی سب عشق کے ماروں کو سزا ملتی ہے
کون کرتا ہے کناروں کو بچانے کی دعا
وقت طوفان کناروں کو دعا ملتی ہے
ساز دل چھیڑو ، امنگوں کو جگاؤ پھر سے
کہ بجانے ہی سے تاروں کو صدا ملتی ہے
اس کی آنکھوں میں مچلتی ہے ہمیں سے شوخی
ہم جو دیکھیں تو اشاروں کو ادا ملتی ہے
حسن جب اپنی نمائش پہ اتر آتا ہے
تو جوانی کے شراروں کو ہوا ملتی ہے
کوئی دل کی بھی دوا ہو گی ، سنا ہے ہم نے
آپ کے ہاتھوں بیماروں کو شفا ملتی ہے
ایک ہی نور کا جلوہ ہے کہ جس سے زاہد
روشنی کی سب جہا نوں کو ردا ملتی ہے