اس کی گلی کے پھتروں کو جانتا ہوں میں
گلشن کے کانٹوں کو بھی پہچانتا ہوں میں
اپنے ساتھ مجھے وہاں یار لیے چلو
تیری ہر بات میں کوئی تو ہے راز ضرور
جو آنکھوں میں تشنگی دل میں پیاس ہے
سینے میں بھرا رنج و غم ہے لبوں پر مسکراہٹ
کچھ بھی کہہ برسوں سے پہچانتا ہوں میں
تیری خاموشی میں کوئی تو راز ہے
دل کا چراغ گل ہے تو پھر کیوں آنکھ لال ہے
تیرا جواب ٹھیک ہے کیا تجھ سے سوال کروں
گزری ہوئی کل کا کیا میں ملال کروں
ناخوش گلستان کا سبب خزاں سے جا کے پوچھ
شب کا حال زرا تاروں سے جا کے پوچھ
تو ہنس ڈال گیا میری ہر بات کو قلزم
ہے سگندل دوست میرا مانتا ہوں میں