اس کے منہ سے سن کے ہم کو اپنا حال اچھا لگا
ڈھل گئی جب ہجر کی شب تو وصال اچھا لگا
ہم کو کیسے بن لیا تھا اس نے اپنے جال میں
توڑ ڈالا جب اسے تو ہم کو جال اچھا لگا
ڈھل گئی جب عمر میری تولگا میں سوچنے
جو تھا تیرے سنگ گزرا ہم کو سال اچھا لگا
بعد مدت ہم نے دیکھا جو اسے بازار میں
ہم کو اس کی سادگی میں بھی جمال اچھا لگا
اس کا یوں ہر بات پہ رکنا سمجھنا بولنا
ہم کو اس کی گفتگو میں اعتدال اچھا لگا
لوگ کہتے ہیں کے سائل تھا بہت مغرور شخص
سن کے لوگوں کا ہمیں ایسا خیال اچھا لگا