اس کے پیچھے ہے دل روانہ ہوا
جس کو بچھڑے ہوئے زمانہ ہوا
جن سے ہاری ہوں زندگی کی خوشی
میچ ان سے تھا دوستانہ ہوا
سادہ لفظوں کی جنگ تھی لیکن
اس کا انجام وحشیانہ ہوا
میر و غالب کا درد کیا سمجھے
لہجہ جس کا نہ شاعرانہ ہوا
غم سمیٹے جو آنکھ سے میں نے
دل کا انداز دلبرانہ ہوا
اب وہ آیا ہے لے کے شعلوں کو
برف پگھلے ہوئے زمانہ ہوا
میرا سایہ تھا ساتھ جو وشمہ
وہ حقیقت نہیں فسانہ ہوا