اوج غم حیات سے شاید ہے ناشناس
پروانے کو جلنے سے شمع روکتی رہی
آتی تمازتوں کا اک انجانا خوف تھا
جاتی سحر کو باد صبا روکتی رہی
لگتا ہے تمنا کا ہی وہ ایک روپ تھا
مرنے سے مجھے جسکی ادا روکتی رہی
تتلی نے کہی پھول سے دل کی ہزار بات
اظہار محبت سے حیا روکتی رہی
شاید مسافتوں سے قدم لڑکھڑا جاتے
ہر گام ہمیں اپنی وفا روکتی رہی
میں جانتا ہوں اسکو ندامت ہے خطا پر
اقرار سے گو اسکو انا روکتی رہی