اسے لگتا ہے شاید یوں
کہ ہر اک بات اسکی ہے
چمکتا دن اسی کے دم
اندھیری رات اسکی ہے
یہ میری ذات اسکی ہے
اسے لگتا ہے شاید زندگی کے تلخ ہونٹوں پر رکھا یہ جام اسکا ہے
سبھی خوشیاں،بکھرتے رنگوں کا نظام اسکا ہے
متاع جاں اسی کی ہے،دل نیلام اسکا ہے
اس لگتا شاید کہ ہمارا نام اسکا ہے
اسے اکثر ہی لگتا ہے کہ جو کچھ اسکو لگتا ہے وہی سچ ہے
مگر افسوس کہ اس بار کچھ ترتیب الٹی ہے
میرے شام و سحر پہ اب کوئ پہرا نہیں اسکا
ہزاروں عکس ہیں لیکن کوئ چہرا نہیں اسکا
میں رنگ و نور کی بارش میں اکثر بھیگ جاتی ہوں
بدلتے موسموں کا تاج پہنے گنگناتی ہوں
میں دیکھو مسکراتی ہوں
خلش ہے تو فقط اتنی
چھبن ہے تو صرف یہ ہے
میں اپنے نرم لہجے کی حلاوٹ بھول بیٹھی ہوں
میں نفرت کرتے کرتے اب محبت بھول بیٹھی ہوں