اسے پیار کرنا میری عادت ہو گئی ہے
جئ سے مجھے اس سے الفت ہو گئی ہے
اتنے تو نہیں تھے ہم اداس پہلے
اب طبیعت بوجھل سی ہو گئی ہے
ہو گئے ہیں تجدید مراسم اس کے ساتھ
شاید پھر سے دوستی ہو گئی ہے
بجھا دیے ہیں سب چراغ اپنے آنگن سے
اس کے آنے سے گھر میں روشنی ہو گئی ہے