نہ اپنے آپ کو شرمندہ خمار کرے
اسے کہو میرے آنے کا انتظار کرے
میری نظر میں اسی کو حیات کہتے ہیں
جو روٹھ جائے تو عالم کو سوگوار کرے
کسی کی جستجو رکھنا کوئی گناہ نہیں
یہ وہ خطا ہے کہ دل جسکو بار بار کرے
جسے ہو دیکھنے جنت کے نازنیں لمحے
وہ اپنے آپ کو پیش جمال یار کرے
ابھی تو کھویا ہوں میں حسن کی اداؤں میں
غم حیات سے کہنا اب انتظار کرے
جسے ہے ناز اپنے ہاتھ کی لکیروں پر
وہ جان ناز میرے خواب تو شمار کرے
پڑا ہے شمع کے قدموں میں پتنگا جل کر
کہا تھا کس نے حسیں روشنی سے پیار کرے