جُستجو ءِ پیار میں کھوےَ ہیں ہم
تمنا ءِ یار سینچے روےَ ہیں ہم
شب بھر سلگتی آگ میں جلتے ہیں
دیوانگی میں ایسے اُن سے منسوب ہوےَ ہیں ہم
عشق میں حصولِ یار حسرت سا لگنے لگا
کشمکش ایسی کبھی مایوس تو کبھی پُر اُمید
سلسلہ یہ ایسا کہ سمجھ سے قاصر ہوا پڑا
وصلِ یار میں ایسے دنیا سے بیگانے ہوےَ ہیں ہم
اک ناطہ بناےَ ہیں وہ بے خبر اس حقیقت سے
ملن کی آس میں رہنا اُنکی جھلک کو ترسنا
میرے ہونے نا ہونے سے بے پروا میرا محبوب
پیامِ محبت ہاتھ میں تھامے پھر بھی کھڑے ہوےَ ہیں ہم
کبھی جو ا جاےَ کسی بہانے سے ہمارے دیس
حجر کی سوغات اُنکے آ جانے سے تھم جاےَ
ہم سے گفتگو ہو ایسی اپنی قسمت کہاں
اُن کے آنے کی خواہش میں سانسوں سے ربط جوڑے ہوےَ ہیں ہم