اعجاز بے خودی کہ صاحب اِسرار جلتے ہیں
کنارئ دہن سے اب گُل و گُلزار جلتے ہیں
تمہارے گیسوئے عنبر فشاں سے رات جلتی ہے
ہمارے فکرِ غم سے صاحبِ افکار جلتے ہیں
تمہارا نام لینے سے بہاریں جھوم اُٹھتی ہیں
محبت کے مگر دُشمن سنو ہربار جلتے ہیں
تمہارے عشق میں اب لڑکھڑانا اچھا لگتا ہے
ہماری مستی ئ الفت سے بادہ خوار جلتے ہیں
سُنا ہے اہلِ دانش کی طبیعت لڑکھڑائی ہے
مرے الفاظ سے اُن کے در و دیوار جلتے ہیں
حقیقت ہے مرے دلبر پتنگوں کی طرح ہم بھی
ترے دامن کی آتش سے مرے دلدار جلتے ہیں
سرودِ جعفری کا دل نے جب سے عشق پالا ہے
مرے دل سے تصور گفتگو بے کار جلتے ہیں