ھم پارسا نہیں پر اقرار کون کرے
دیکھنا یہ ہے، کہ اب اعتبار کون کرے
محبتوں کا اِک سلسلہ ہے
اِک محبت پہ اب جان نثار کون کرے
فطرتِ انسان کو نہیں قبول غلامی
اُس سا جو آقا ہو تو انکار کون کرے
محبت تو اُس کے بھی دل میں ہے
ہیں کشمکش میں کہ اظہار کون کرے
لفظ ہونتوں پہ آکے رُک سے جاتے ہیں
وہ سامنے ہو تو گفتار کون کرے