امشب غمِ حیات کو مہمان چاہئے
اس زندگی کو آپ کی پہچان چاہئے
کرتی ہوں دل و جان سے میں بھی غموں سے پیار
غم کا ہی اس کہانی کو عنوان چاہئے
ٹوٹے تو ٹوٹ جائے یہ بھی پیار کا محل
شیشے کی طرح مجھ کو تو پیمان چاہئے
دیکھے ہیں کتنے آدمی راہِ حیات میں
اب زندگی کے ساتھ کو انسان چاہئے
مرتے تھے جب فراق میں وہ دن نہیں رہے
تم جان ، جان ،جان ہو تو جان چاہئے
چاہت کی اس زمین پہ کافر نہ میں مروں
وشمہ مجھے تو عشق سا ایمان چاہئے