مغموم سے ہی ہو ئے کئی سال ہوگئے
امشب غمِ کو پائے کئی سال ہوگئے
چمکا تمہاری یاد سے جب دل کا آئینہ
ہر راستے میں آئے کئی سال ہوگئے
اک شخص میری آنکھ میں ٹھہرا رہا مگر
دیکھا جو آزمائے کئی سال ہوگئے
یہ زندگی اٹھا کے اڑوں آسمان تک
ہمت کو اڑائے کئی سال ہوگئے
سوچا تھا میں گزار لوں شہرِ زمین پر
دنیا کو نہ بھائے کئی سال ہوگئے
مرتے تھے جب فراق میں وہ دن نہیں رہے
تم جان جان آئے کئی سال ہوگئے
دنیا کے سارے رشتے ، رواجوں کو توڑ کر
وشمہ جی جو نبھائے کئی سال ہوگئے