بچھڑ چکی جو مجھ سے مری صدا ہی نہ ہو
کواڑکھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
عجیب لگنے لگی ماں کے بعد یہ دنیا
میں اس کو پھر منا لوں کہیں خفا ہی نہ ہو
جس کے آسماں پہ جانے کا سوچتی ہوں ابھی
مری زمیں پہ وہ میرا کہیں خدا ہی نہ ہو
وہ کام زیست میں کرنا پڑا مجھے اکثر
جسے کرنے کو دل نے کبھی کہا ہی نہ ہو
جس کے آسماں پہ جانے کا سوچتی ہوں ابھی
مری زمیں پہ وہ میرا کہیں خدا ہی نہ ہو
وہ کام زیست میں کرنا پڑا مجھے اکثر
جسے کرنے کو دل نے کبھی کہا ہی نہ ہو
مرے گھر میں یوں روٹھی ہے روشنی مجھ سے
میں لاکھ خود کو جلاؤں مگر ضیا ہی نہ ہو
سخن وری میں تھی گمنام مر گئی وشمہ
امیر شہر یہ تیری کہیں خطا ہی نہ ہو