ان منظروں میں کچھ بو گئے نین
دیکھو پھر کہاں یہ کھو گئے نین
لہر سے پھر جو لہر اٹھی
کس کس حَس کو چھوُ گئے نین
توُ نہ سمجھا، تو تیرا نصیب
کچھ تو ضرور کہہ گئے نین
اپنی راہ سے جو مُڑ چکے تھے
تیری ڈگر پر ٹھہر گئے نین
جس مزاج سے میں کتراتا تھا اکثر
اُن ہی رمزوں کی ہو گئے نین
ابکہ اٹھانے کی پھر ضد نہ کرو
تیرے نینوں سے جو بہہ گئے نین
توُ نہ آیا نہ آس چھُوٹی سنتوشؔ
کچھ ہی دیر پہلے سوگئے نین