ان کا مزاج اب تو یکسر بدل گیا
دریا ر خ_بہاؤ کیوں کر بدل گیا
دل میں بسا ہے ان کے اب اور کوئی شاید
مندر وہی ہے لیکن پتھر بدل گیا
تجسیم کر رہا تھا مجھ کو خدا لگن سے
تخلیق کرکے اپنے تیور بدل گیا
باتیں وہی تھیں لیکن شدت نہیں تھی وہ
باہر وہی تھا لیکن اندر بدل گیا
کتنی ہی چاہ،قسموں وعدوں کے با وجود
کیسے کہوں وفا کا پیکر بدل گیا
مۓ نہ سبو،نہ جام نہ کوئی انجمن
ان سے کہو تمھارا شاعر بدل گیا
تھوڑا سا دور جا کے لوٹا لپٹ گیا،
لمحوں میں کس طرح یہ منظر بدل گیا
سرمد اسے سلامت رکھے سدا خدا
میرے مزار کی جو چادر بدل گیا