کرنوں کا سمٹنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
خوشبو کا بکھرنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
ملنے کے وہ ہر روز کئی شوخ بہانے
پھر سوچ کے ہنسنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ بیٹھ کے چھاؤں میں حسیں وقت کے وعدے
وعدوں سے مکرنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
لمحوں کو چھیڑتی ہوئی مسحور ادائیں
آنچل کو جھٹکنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
پڑھنا کبھی “شعاع“ تو کبھی رضیہ کے ناول
پھر ان میں بھٹکنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ بیچ رسالے کے چھپانا میری تصویر
وہ صفحے پلٹنا بھی تمہں یاد تو ہو گا
وہ محسن و پروین کے اشعار کو اکثر
دیوار پہ لکھنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ پھونک سے تتلی کو ہتھیلی سے اڑانا
پھر اسکو پکڑنا بھی تہیں یاد تو ہو گا
شب بھر وہ خیالات کا اک جھیل کنارا
تاروں سے الجھنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ چاند کی نگری سے کسی شاہسوار کا
زینے سے اترنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ آئینے کے سامنے گھنٹوں کھڑے رہنا
بے وجہ سنورنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ ہلکی سی آواز میں سننا لتا کے گیت
آسوں کا چمکنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
کالج کے کوریڈور میں وہ سامنا ہونا
وہ نوٹس کا گرنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
لکھ لکھ کے میرا نام ہتھیلی پہ ناز سے
پھر اسکو کھرچنا بھی تمہیں یاد تو ہا گا
وہ زکر جدائی سے تیرا سہم سا جانا
بچوں سا سسکنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ رات گئے ڈائری لکھتے ہوئے یکدم
کاجل کا ٹپکنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ وقت جدائی وہ تیرا ٹوٹ کے رونا
اور میرا پلٹنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
پھر عمر بھر نہ ملنے کے کچھ تلخ سے پیماں
اور پھر وہ بچھڑنا بھی تمہیں یاد تو ہو گا
وہ گزرے ہوئے پل ،وہ ہوائیں ،وہ فضائیں
وہ وقت کی ،لمحات کی البیلی ادائیں
ممکن ہے کہ خوابوں میں تمہیں روز ستائیں
ان یادوں سے کہہ دو کہ تمہیں یاد نہ آئیں