دل کی اداسی افق پر چھا گئی
چاند ستاروں کو بھی دھندلا گئی
وہ آسماں نیلگوں کب تھا
نظر نظر اشکوں میں نہلا گئی
بہار کا لطف بھی اجنبی
کلی جو چٹکی تھی کملا گئی
دور بادلوں کا پیراھن
ھؤا جانے کہاں اڑا گئی
انتظار کے بپھرے ھوئے سائے
ہیجانی آس بھی زورآزما گئی
ابھی تو وقت ڈھلا ھی نہیں
عاقبت نیدیں اڑا گئی
ہہ کیا ربط رھا عارف
زندگی ھم پر کھلکھلا گئی