وہ شخص کچھ نہیں پھر بھی ہے کام کا
اندھیرے میں چمکے اک ستارہ میرے نام کا
پیاس تو برسوں کی تھی لیکن
میسر ہی تھا دیدار جام کا
گھڑی کی ٹک ٹک سناٹا سنا رہی تھی
ُاس نے بھیجا ہی نہیں خط پیغام کا
اب کہاں ڈھونڈتی ہو تم خوشیوں کو
وہی ہے ُسکوں تیری صبح و شام کا
بے ترتیبی سے تو بہت کچھ کر لیا
لکی ! اب کچھ تو کرو نظام کا
شاید مجھے بھی کبھی ملے صلہ
وفا و محبت سے کچھ انعام کا
خاموش آنکھوں میں تو ساغر تھا
پر ُاس نے پوچھا ہی نہیں کلام کا