انہیں آتا ہے بس انکار کرنا
ہمیں آتا نہیں اظہار کرنا
تمہیں تو جیسے ضد سی ہوگئی ہے
ہماری زندگی دشوار کرنا
گھڑا ہے ہاتھ میں اور جارہی ہوں
اسے کہتے ہیں دریا پار کرنا
نبٹنے جا رہا ہوں زندگی سے
زرا رخت ِ سفرتیار کرنا
اسے سینچا ہے میں نے اپنے خوں سے
نہ رشتوں کا محل مسمار کرنا
یہ اک دو کام تم کو آگئے ہیں
مجھے مشکل سے بس دوچار کرنا
ہمارے شیخ کے ذمے لگا ہے
مسلماں دین سے بیزار کرنا
لگا دی پھر سے قیمت زندگی کی
تمہیں تو آگیا بیوپار کرنا
نہ ہم سہہ پائیں گے انکار صاحب
خدارا سیکھ لو اقرار کرنا
اداکاری تو کرنی ہی نہیں ہے
ادا یوں تم کو ہے کردار کرنا
اڑائی ہے یہ مفتی نے ہوائی
بہت بیکار ہے "یہ پیار کرنا "