اس نے شہر میں رہ کر بھی کوئی رابطہ نہیں رکھا
ہمیشہ فاصلے ہی رکھے ہیں کوئی فیصلہ نہیں رکھا
اس کے چہرے سے عیاں ہو رہے تھے میرے نقوش
اس لئے اس نے گھر میں کوئی آئینہ نہیں رکھا
دہلیز پہ قدم رکھتے ہی اشک ٹپک آئے ہیں
حالانکہ میں نے آنکھوں میں کوئی حادثہ نہیں رکھا
لفظوں سے آگ برسائی جب اس نے لکھا ہے
لہجہ بھی کبھی اس نے شائستہ نہیں رکھا
عثمان اترنے بھی نہیں دیتا مجھے دل کی سرحدوں پر
اور واپسی کا بھی اس نے کوئی راستہ نہیں رکھا