اُس روش میں ادھوری ملاقات رہہ گئی
جو کچھ بات تھی وہ تو بات رہہ گئی
خاموش حسرتوں کو کب تک دبائے رکھیں
ایسے بھی تو مجھ سے ہر رات رہہ گئی
تیرے خیال میں کوئی خیال ہے تو بتا
میرے خلل میں تو بس گھات رہہ گئی
جب انہیں اپنی منزلت کے سوچ پڑی
تب سے یہ دل جیسے بساط رہہ گئی
ہواؤں کے روش نے کس کو کیا بھیجا
میرے آنگن میں تو اڑتی خاک رہہ گئی
وہ تو اپنی مَسُلک سے چلدیئے سنتوش
یہاں تو اپنی بس ذات رہہ گئی