شام کا پہر
اور انتظار کی صعوبتیں
سورج ڈھل رہا تھا
دل ڈوب رہا تھا
پرندے اپنے گھونسلوں میں
دبکنے جا رہے تھے
قطار در قطار
مگر مجھے تھا انتظار
آج اُس کو آنا ہوگا
میرے جزبوں پہ چھانا ہوگا
اُداس زندگی میں
پیار کے رنگ بھرنے ہونگے
بے چین بانہوں میں
سمٹنا ہوگا
پیاس جو بڑھتی جا رہی تھی
آج اُس کو مٹانا ہوگا
مگر
سورج نے آخری کرن
میرے چہرے پہ ایسے ڈالی
دل کی حسرت ہی جیسے مٹا ڈالی
اندھیرا چھا رہا تھا
دل ڈوبا جا رہا تھا
شام کا پہر، پھر سنسناتی رات
ہر سو اندھیرے کا راج تھا
میرے ارمانوں پہ
اوس پڑنے لگی
چاند نے لوری دیکر سلانا چاہا
تارے میری بے کلی پر ہنس رہے تھے
بے چین دل کا حال
وہ کیسے جان سکتے تھے
اُف میرے خدا
سحر کا اُجالا پھیلنے لگا
اُس کے وعدے کی ملاقات
آج بھی نہیں ہو پائی تھی