اُسکی صورت ہے ایسی کہ جیسے گلاب
اُسکی یادیں ہیں ایسی کہ جیسے عذاب۔
خوابوں میں آکے وہ مجھ کو جھگا ۓ
یہ عادت ہے اُسکی بہت ہی خراب
نہ جانوں میں یہکہ حقیقت میں کیا ہے۔
پر لگتی ہے مجھ کو بہت ہی نایاب
ملے مجھ سے جب بھی وہ شرما سی جاۓ
چہرہ چھپا کے وہ اوڑھے حجاب۔
آنکھوں میں اُسکی اثر ہے شرابی
وہ بوڈھے کو دیکھے بنا دے شباب
چہرہ ہے اُس کا بہت ہی روحانی
چمک اُسکی ایسی کہ جیسے مہتا ب
یادیں بہت ہیں اُسکی پرانی
سناؤں میں ایسے کہ جیسے کتاب
پر عبدالؔ کی آنکھیں برستی ہیں ایسے
کہ اشکوں کی اُسکا نہیں ہے حساب