اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے
ہم کب آواز سُنے بِن بھی، کبھی پھرتے تھے
لے مُصیبت وہ محبّت میں کڑی پھرتے تھے
صبح نِکلے پہ اندھیرے کی گھڑی پھرتے تھے
اب اُسی شہر کے ہرگھر کو میں زِنداں دیکھوں !
جس کے کوچوں میں غم آزاد کبھی پھرتے تھے
دیکھ کر جن پہ غزالوں کو بھی حیرانی ہو !
یوں وہ آنکھیں لئے کاجل سے سجی پھرتے تھے
یادِ محبُوب میں کیا کرب تھا، ایّامِ فراق !
لے کے آنکھوں سے رَواں ایک جھڑی پھرتے تھے
جذبِ دِل اُن کو دِکھانے میں تردّد تھا، خلش
ورنہ ہاتھوں میں دِئے ہاتھ سبھی پھرتے تھے