اِس قدر نہ ہمیں ستاؤ تم، بغاوت پہ ہم اُتر آئینگے
تم ہماری جھوپڑیاں جلاؤگے ، ہم تمہارے آشیانے جلائینگے
اِس محبت کو تم آزماؤ نہ ، اِک آگ ہے اِسے بھڑکاؤ نہ
شعلہ بنے گر جہان کیا چیز ہے ہم خود کو نہ روک پائینگے
نہ لگاؤ صبر پہ ٹھوکریں اِس صبر کے پیچھے سیلاب ہیں
تمہاری ہستیاں ، تمہاری بستیاں سب کچھ بہا کے لے جائینگے
چھیڑو نہ ہم کو پاگلو ! ہم مصروفِ عبادتِ عشق ہیں
ٹوٹی اگر جو یہ بندگی ، تو زلزے یہاں سے اُٹھائینگے
جو بیٹھا ہے اُونچے تخت پہ سُنیگا وہ ہماری التجائیں سبھی
بادلوں کو چیڑتی جائینگی ، ہم صدائیں ایسی لگائینگے
ہمیں رائے وفا پہ جانا ہے ، ہمیں یار کو ہر حال پانا ہے
دیکھ لینا مر کے بھی اُسے قسمت میں اپنی لکھوائینگے
یہ محبتوں کے دستور ہیں ، دن رُخِ یار سے نور ہیں
نہالؔ خون نکال کے جگر کا ، نہالِ عشق وہاں اُگائینگے