اٹھ گئے ہیں سارے پردے اب نہاں کچھ بھی نہیں
یہ زمیں یہ چاند تارے آسماں کچھ بھی نہیں
وقت نے بدلی جو کروٹ سب بدل کر رکھ دیا
اب وہ پہلے سا ہمارے درمیاں کچھ بھی نہیں
خلوتوں کی قید میں ہیں ہم ہجوم شہر میں
بن تیرے لگتا ہے جیسے اب یہاں کچھ بھی نہیں
کوچہِ یاراں کی عظمت کیا بتاؤں میں تمہیں
سامنے اس کے تو جنت کے مکاں کچھ بھی نہیں
ان کا سنگ در ہے سجدہ گاہ زمانے کے لیئے
اس کے آگے اولیا کے آستاں کچھ بھی نہیں
جلوہ گاہ ناز کے پردے ہٹے تو دیکھیو
اب تلک اے ناصحا تجھ پر عیاں کچھ بھی نہیں
عمر ساری ہم نے رستے ڈھونڈنے میں صرف کی
جب ملی منزل تو دیکھا کہ وہاں کچھ بھی نہیں
نے ہی گرد راہ ہے نے قافلوں کے ہیں نشاں
وہ جرس کا شور اور وہ کارواں، کچھ بھی نہیں
دیکھ حیدر آگے آگے عشق میں ہوتا ہے کیا
اب تلک جو بھی ہوا ہے یہ زیاں کچھ بھی نہیں