اگر جانا تھا تجھے تو اپنی یاد بھی لے جاتے
برستا رہا میں جس غم کے بارش میں وہ برسات بھی لے جاتے
جس کی وجہ سے میں اپنا وجود کھو بیٹھا
اپنا وہ ناکام پیار بھی لے جاتے
قصور صرف اتنا ہی تھا کے تجھ پے بھروسہ کیا
جان تو لے لی تم نے اپنا اعتبار بھی لے جاتے
صدیوں سے ترس رہا تھا تیرے دیدار کے لیئے فہیم
تم تو نہ آئی پر اپنا انتیظار تو لے جاتے