اپنے دل کی اگر صدا نہ ہوا
کچھ تمہاری بھی تو دوا نہ ہوا
اب میسر ہے گہری تنہائی
اب تو خود سے آشنا نہ ہوا
غم کا شکوہ نہ کیجئے صاحب
اپنی حالت میں مبتلا نہ ہوا
ہو ہی جائیں گے ہم خیال کبھی
ایک دوجے کے ہم نوا نہ ہوا
پڑھ لی زندان میں نمازِ عشق
کیا اسیری سے اب رہا نہ ہوا
بے وفائی پہ مرگئے تیری
پھر بھی کہتے ہو یہ وفانہ ہوا
فاصلے ہیں یہ زندگی بھر کے
زندگانی کا فاصلہ نہ ہوا
خود کو طوفاں میں آزمائیں کیا
ساحلوں کا ہی تو سرا نہ ہوا
خوفِ دنیا نکال کر دل سے
دیکھو دنیا کا آسرا نہ ہوا
جانے کس حال میں ہے شہزادہ
جس کی خواہش میں ہی فنا نہ ہوا
بے اثر ہے مری دعا وشمہ
گھٹتی سانسوں کی اک صدا نہ ہوا