وہ مجھے دوست جانتا ہی نہیں ہے
میری کوئی بات مانتا ہی نہیں ہے
راستے میں اگر مل بھی جائے
یوں دیکھتا ہے جیسے جانتا ہی نہیں ہے
ہر غم کو سینے میں چھپائے رکھتا ہے
اپنے دکھوں کو میرے ساتھ بانٹتا ہی نہیں ہے
نہ جانے مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے
اب فون کروں تو بولتا ہی نہیں ہے
خودداری شامل ہے اصغر کی فطرت میں
یہ کسی کے در کی خاک چھانتا ہی نہیں ہے