اپنے طرز انداز کو کہیں جمنے سے ڈر لگتا ہے
طبیعت کا سکوں پھر بڑھنے سے ڈر لگتا ہے
میں آنکھوں میں چھپی رمز پہ غور نہیں کرتا
ایسے قفس زنجیروں کو کھچنے سے ڈر لگتا ہے
میرے حال کا کوئی منظر عیاں نہ کردے
اس لیئے ہر بار آئینے سے ڈر لگتا ہے
بجلیاں اور بارشیں تو وقت پہ آتی رہی ہیں
سچ تو یہ کہ مجھے بھیگنے سے ڈر لگتا ہے
کچھ یادیں کچھ کروٹیں سونے ہی نہیں دیتی
مجھے رات کے ہر قرینے سے ڈر لگتا ہے
یہ جہاں مجھ سے کچھ عناد رکھ بیٹھا ورنہ
کس نے کہا تیرا ہونے سے ڈر لگتا ہے