اپنے گمنام لمحون کی حقیقت کس سے پوچھوں
غارت سے گذرا ہر پل، غنیمت کس سے پوچھوں
اس خود نمائی سے تو اختلاف رہا بھی ہے ہمیشہ
ہر طرف مفلسی افلاس، واجبیت کس سے پوچھوں
لوگوں کو سبقت ملی بھی تو تجاوز کر گئے ہیں
اس ایمان کی کیا ہے؟ فوقیت کس سے پوچھوں
یہاں نفیس نہیں بلکہ نفس پرست ہے دوستی
کوئی رقیب نہیں تو یہ، رغبت کس سے پوچھوں
مردوں کے صلب اور عورتوں کے شکم میں رہا
اب کہ اپنے ایمان کی، تقویت کس سے پوچھوں
نشیب و فراز، زندگی کی جیت مانگوں تو کہنا
آرزو ہے رفاہ عامہ یہی، وصیت کس سے پوچھوں