یوں آنا اس کا لوٹ کر اچھا لگا مجھے
دل کے دھڑکنے کا یہ سبب اچھا لگا مجھے
کہتے ہیں وہ وفاؤں کا ھم کو نہیں شعور
اس بے وفا یہ گلہ اچھا لگا مجھے
یادوں کے سفر میں کہیں آنکھیں ناں جل اٹھیں
چہرے پہ وقت کا سائباں اچھا لگا مجھے
اسکے وصال میں جو کٹے لمحے اسطرح
کہ اٹھ اٹھ کر راتوں کو سسکنا اچھا لگا مجھے
دیکھا جو اس نے آئینہ تو پھیلے ہوئے تھے رنگ
بکھرنا اسکا یوں ٹوٹ کے اچھا لگا مجھے
کھول کر دروازہ دل بیٹھے رہے انتظار میں
ہر آہٹ پے انکے آنے کا گماں اچھا لگا مجھے