اچھی نیت نہیں زمانے کی
خیر ہو اپنے آشیانے کی
پھر رہے ہیں بجھے چراغ لیے
جن کو حسرت تھی گھر سجانے کی
ذکر آیا تمہارے ہونٹوں کا
بات نکلی تھی مسکرانے کی
مہکاَ مہکاَ ہوا ہے شہرِ خیال
ہے خبر گرم اُنکے آ نے کی
رنج اُ نکو ہے شاعری کا مرِے
بات تو ہے برُا منانے کی
تپَ رہی ہے جبینِ غنچہء دل
پھر نظر لگ گئی زمانے کی
شکر ہے کچھ تو غیر کے آ گے
اچھی شہرت ہے اس دیوانے کی
بھولنے والے یاد ہے اب بھی
ہم کو تاریخ تیرے جانے کی
موت کی آرزو کر یں انور
ہے جو خواہش اُنہیں بلانے کی