اک اجنبی جو خیالوں میں ہی ملا ہے مجھے
نجانے کیوں وہ بہت یاد آ ر ہا ہے مجھے
تصورات کی دنیا حسین ہونے لگی
وہ گیت گاتا ہے ، ہنستا ہے ، چھیڑتا ہے مجھے
بہت دنوں سے مری نیند بھی ہے روٹھی ہوئی
وہ یاد آتا ہے راتوں کو جگاتا ہے مجھے
یوں اس کی سانسوں کی خوشبو رچی ہے سانسوں میں
کہ اپنے آپ سے بیگانہ کر دیا ہے مجھے
مرے خیالوں میں پھر جلترنگ سی بجتی ہے
وہ آدھی رات کو جب بھی پکارتا ہے مجھے
بس ایک راز کی طرح ہے میرے سینے میں
بڑی خموشی سے اپنا بنا گیا ہے مجھے
میں کھو گیا ہوں یہ کیسے حسیں خیالوں میں
وہ اپنے ساتھ کہیں دور لے چلا ہے مجھے
خبر نہ ہو گی اسے میرے پیار کی زاہد
میں کہہ سکوں گا نہ اس کو تو بھا گیا ہے مجھے