اک اور غزل لکھ لیتے ہیں اک اور فسانہ ہو جائے
ادراک کی سونی وادی کا موسم تو سہانا ہو جائے
جو ہونٹ کبھی نہ کہہ پائے وہ پھول نے آخر کہہ ڈالا
اب پھول کو ڈر ہے وحشت میں ٹہنی سے جدا نہ ہو جائے
میں بیچ کھڑا ہوں نظروں کی انگار فشانی میں تب تک
الفاظ کی حرمت کا جب تک ہر قرض ادا نہ ہو جائے
ہاتھوں کی لکیروں میں ابتک وہ نقش سجائے بیٹھے ہیں
اب دھیرے سے آ جاؤ ناں ۔ تقدیر خفا نہ ہو جائے
یہ راہ وفا کا قصہ ہے اس راہ پہ چلنے والوں کا
ہر روپ بکھر کر ساز بنے ہر لفظ ترانہ ہو جائے
اس آنکھ کی پرنم وادی میں کچھ خواب بھرے ہیں رنگوں کے
ان رنگوں میں ڈھلتے ڈھلتے یہ عمر قضا نہ ہو جائے