اک تمنا خیال سے پھر بات بڑھتی گئی
جیسے سویرے کے منتظر پہ رات بڑھتی گئی
اِس گردش محور کو آخر کیا نام دیتا
یوں پہچان میری جیسے اجات بڑھتی گئی
عشق بہتات کو اکثر بھٹکتے ہی دیکھا
وہ بھی تھی فرد خلش ساتھ بڑھتی گئی
تیری رنجشوں نے کہاں کہاں پھول بوئے
میرے چلمن میں یوں خاک بڑھتی گئی
کچھ دیر لیئے دل بہلانے کو نکلے تھے
پھر کیا ہوئا؟ اُن سے ملاقات بڑھتی گئی
ہجر تسکین کو سنتوشؔ پتھر بھی خدا بنے
بشر کی بھی ایسے عالیات بڑھتی گئی