اب عہد و پیمان وفا باندھے جاتے ہیں
نام قاتل سے جو شہر میں جانے جاتے ہیں
اب کہ روٹھی ہیں بہاریں گلستاں سے میرے
خزاں سے ٹوٹے ہوئے پتے ہی گرانے جاتے ہیں
مزار محبت کی عمارت گری پڑی ہے
چلو کہ ہم ہی اٹھانے جاتے ہیں
مئے کدے میں ساقی کو نصیحت کرنے
واعظ مئے کے بہانے جاتے ہیں
مئے کدے میں مئے وہ کم پیتے ہیں
ہاں مگر اوروں کو پلانے جاتے ہیں
ہم چلاتے ہیں کبھی جو دور جام
ہر تشنہ لب تک پیمانے جاتے ہیں
اک پروانہ سر بزم اک دیوانہ عیاز
عشق و جنوں کے مجرم گردانے جاتے ہیں