اک چھوئی موئی سی بل بل دل کو چھو کر گزر گئی ہے
وہ ابھی ابھی تو یہیں تھی نہ جانے کدھر گئی ہے
کبھی نظریں اٹھا کے دیکھے کبھی نظریں چرا کے دیکھے
کبھی پلکوں پہ چاہتوں کی نظریں جما کے دیکھے
کبھی زلفوں کی بندشوں کو بہانے بنا کے دیکھے
کبھے وہ دانتوں سے انگلیاں اپنی دبا کے دیکھے
اس نے چہرے پہ مسکراہٹ کیا خوب ہے سجائے
جیسے روئے زمیںں پہ تارے آسماں سے اتر آئے
اس کی عطارد کے جیسی آنکھیں زہرا سا نور اس کا
اس کی مریخ سی ادائیں کیا جلوہ ظہور اس کا
حیران مشتری ہے چاند پہ گھٹا کیون چھا گئی ہے
جب سے فلک الفلک سے زمیں پہ یہ حور آگئی ہے