وفا کے نام پہ اکثر میں رو پڑی
تیرے ہر الزام پہ اکثر میں رو پڑی
نہ کر سکا تو یقین جاناں میرا کبھی
اپنے ہر کردار پہ اکثر میں رو پڑی
میں نے کہا تو ہی تو تو نے کہا تو نہیں
تیرے اس انکار پہ اکثر میں رو پڑی
جان کر بھی ساری بات بنا رہا انجان تو
ایسے ہر جزبات پہ اکثر میں رو پڑی
دیکھا اپنے ہاتھوں کو لکیریں خالی خالی تھیں
پڑھ کر اپنی ہی تقدیر پہ اکثر میں رو پڑی
عائش وہ اجنبی کر گیا تھا جو دل میں گھر
دیکھ کے اس کو بارہا اکثر میں رو پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔