دیکھ لوئوں جو تجھ کو صبح صبح
گزرتا ہے دن پھر خوشگوار میر
مسکرہتیں راحتیں ہر سُو نظر آتی ہے
آنکھ کُھلتے ہی ہو جائے جب دیرار تیر
رجناب ہے تُو اور پیار جنت تیرا
وادی۔ بہشت جیسا ہے دیار تیر
مجھے شب کا اندھیرا اچھا نہیں لگتا
رات بھر رہتا ہے مجھے انتظار تیر
کب سورج نکلے اور میں دیکھو اپنے چاند کو
دیکھو پھر دیکھو دیکھتا رہو چہرہ بار بار تیر
دل و دماغ اب کہاں سنتے ہے میری
رہ گیا ہے ان پے بس اب اختیار تیر
نہال چُھپ کے جب دیکھتی ہے وہ حُسن نواب
تو جاتا ہے یہ پاگل دل ہار ہار میر