پیار آئے گا کیوں پیاروں پہ
نظر اس کی ہے گوشواروں پہ
میرا مسلک تو بس وفائیں ہیں
کیسے ناچوں ترے اشاروں پہ
زندہ رہنے کی آرزو دے دو
مجھ کو جلنا ہے جب شراروں پہ
زیست کیسے میں اب گزاروں گی
حسن آئے گا کب بہاروں پہ
مجھ کو لگتا ہے چھوڑ آئی ہوں
ایک دل تھا وہ چاند تاروں پہ
لفظ چمکے ہیں آج شعروں میں
سوچ بھاری ہے استعاروں پہ
میں بھنور سے ہی ہم کلام رہی
کوئی بیٹھا رہا کناروں پہ
سارے مل کر بھی کچھ نہیں وشمہ
ایک بھاری ہوں میں ہزاروں پہ